سعودی عرب کا شہر مکہ المکرمہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سرفہرست ہے۔ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔۔لیکن، بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اس قدیم ترین شہر کے خدوخال بھی بدل گئے ہیں، جن کا کچھ لوگوں نے خیرمقدم کیا تو کچھ نے اسے بہتر خیال نہیں کیا۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران، مکہ شہر میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور یہ تبدیلیاں اتنی غیرمعمولی تھیں کہ مکہ کے پرانے باشندوں کے بقول، یہ شہر اب وہ شہر نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ ایک وہ دور تھا جب مکہ چھوٹا سا تھا اور زائرین خانہٴکعبہ کے اوپر بیٹھ کر اردگرد کی ویران پہاڑیوں کو دیکھا کرتے تھے جہاں ایک زمانے میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ گھوما کرتے تھے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اب ان پہاڑیوں کانام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ مسجد الحرام کے گرد سیون اسٹار ہوٹلوں کی بھرمار ہے اور تاریخی پہاڑیوں اور صدیوں پرانے گھروں کی جگہ مزید اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔
مکہ میں تعمیر کیا گیا کلاک ٹاور دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے جس کے اوپر نصب گھڑیال رات کی تاریکی میں جگمگاہٹ بکھیر کر دور، دور تک وقت دکھاتا ہے۔ یہ کلاک ٹاورخانہ کعبہ کے نزدیک ہی واقع ہے۔
سنہ 2000کے عشرے میں مکہ کو نیا رنگ و روپ دینے کے لئے سعودی حکمرانوں نے جن منصوبوں کا آغازکیا تھا وہ ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن شہرکا نقشہ ضرور بدل گیا۔
اسامہ البار مکہ کے مئیر ہیں۔انہوں نے شہر کی تبدیلیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’بچپن میں وہ خانہٴکعبہ کے قریب سے گزر کر مصالحوں اور کپڑوں کی مارکیٹ جاتے تھے، جہاں ان کے والد کی دکان تھی۔ اب نہ وہ مارکیٹ ہے اور نہ ہی دیگر عمارتیں۔‘
اسامہ البار کے مطابق، ’میرے والد اور مکہ کے تمام رہائشی اس شہرکو پہچان نہیں سکتے۔‘
تعمیراتی کام سے روحانی تاثر متاثر: ناقدین
ادھر مکہ میں جاری تعمیراتی منصوبوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ’تعمیراتی کام نے مقدس شہر کے روحانی تاثر کو متاثر کیا ہے۔ مکہ اب امیروں کا شہر بنتا جا رہا ہے جو سیون اسٹار ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں اور قریب ہی واقع بین الاقوامی چین جیسے ’پیرس ہلٹن‘ اسٹورز اور ’اسٹاربکس‘ وغیرہ سے خریداری کرتے ہیں۔‘
سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے گزشتہ سال ایک معروف مقام کو گرائے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا ’مسجد الحرام کی توسیع کے لیے مختلف مقامات کو منہدم کرنا ضروری ہے‘، جبکہ تبدیلیوں کے ناقد اور آرکیٹیکٹ سمیع انگاوی کا کہنا ہے ’مکہ شہر بالکل بدل
گیا ہے۔ سیون اسٹار ہوٹلز، ٹاور کی روشنیاں دنیا کے کسی بڑے اور ماڈرن شہر کا منظر پیش کرتی ہیں۔مکہ کے تاریخی حقائق کو بلڈوز کر دیا گیا۔۔کیا یہی ترقی ہے؟‘
مکہ کا انتظام سعودی شاہی خاندان کی ذمے داری ہے اور ان کے لئے غیر معمولی احترام کی وجہ بھی۔ سابق شاہ فہد اورموجودہ فرمانروا شاہ عبداللہ کو ’خادم الحرمین شریفین‘ کہا جاتا ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ’شہر میں تبدیلیاں لانا ضروری ہے تاکہ حج کرنے کے لیے آنے والے افراد کو سہولیات فراہم کی جاسکیں، جن کی تعداد 2040 تک تیس لاکھ کے لگ بھگ ہوجانے کی توقع ہے۔ مسجد الحرام کی توسیع کے ساٹھ ارب ڈالرز کے منصوبے کے تحت زائرین کے لیے مطاف سمیت مسجد کے احاطے اور رقبے کو لگ بھگ دوگنا کردیا جائے گا۔‘
مکہ کے مئیر اسامہ البار کا کہنا ہے ’اس رقم کا پچاس فیصد مکہ کے ارگرد واقع پانچ ہزار آٹھ سو گھروں کو خریدنے پر خرچ ہوا تاکہ انہیں توسیع کے لیے گرایا جا سکے۔ مسجد الحرام کے مغربی حصے میں واقع پہاڑی جبل عمر بھی منصوبے کی زد میں آ گئی۔ ایک دور میں مکہ شہر کا امتیازی نشان سمجھی جانے والی اس پہاڑی کو لیول کرکے وہاں تقریباً 40 عمارات تعمیر کی جارہی ہیں جن میں سے بیشتر فائیو اسٹار ہوٹلز ہیں جو گیارہ ہزار کمروں پر مشتمل ہوں گے۔ جبل عمر میں اس حوالے سے گزشتہ چند ماہ کے دوران سب سے پہلے ہلٹن سوئیٹس اور انجم ہوٹل زائرین کے لیے کھولے گئے ہیں۔‘
مسجد کی جنوبی سمت میں 1972 فٹ لمبا کلاک ٹاور ہے جو سات ٹاور کمپلیکس کا مجموعہ ہے اور اسے عثمانی عہد کے قلعے کو گرا کر تعمیر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ جبل شراشف کا منصوبہ بھی زیرتعمیر ہے جس کے لیے برمی اور افریقی تارکین وطن کے کچے گھروں کو گرا کر سعودی شہریوں کے لیے ایک نئی رہائشی آبادی اور ہوٹل وغیرہ تعمیر کیے جارہے ہیں۔
چار لائنز کا میٹرو سسٹم بھی شہر کی نئی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس پر ہائی اسپیڈ ریل لائن کے ذریعے مکہ کو جدہ اور مدینہ منورہ سے منسلک کردیا جائے گا۔
لندن کے اسلامی ثقافتی ریسرچ فاوٴنڈیشن کے سربراہ عرفان العلاوی جو سعودی نژاد ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مکہ کے منصوبہ سازوں کو خانہ کعبہ کے بہت زیادہ قریب تعمیرات نہیں کرنا چاہئے اور ہوٹلوں کو اس سے میلوں دور تعمیر کیا جانا چاہئے تھے جبکہ ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر بنایا جانا چاہئے تھا۔‘
برطانوی اخبار ’دی انڈیپینڈینٹ‘کے مطابق سعودی وزیر انصاف محمد العیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’تعمیرنو کے منصوبوں میں مقدس اور تاریخی مقامات کا خیال رکھا جائے گا اور ان تمام اہم جگہوں کے بارے میں غیرمعمولی احتیاط سے کام لیا جائے گا جو مسلمانوں کے انتہائی اہم اور مقدس ہیں۔‘